کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 92
سمجھتےہیں،کیونکہ ان کی کتب میں اسی چیز کی تاکیدہے۔ زیدی ،اثناعشری رافضیوں کی طرح تحریف قرآن کے قائل نہیں ہیں، ان کے ایک امام یحیٰ بن حسین بن قاسم (م:298ھ)اپنی کتاب ’’مجموع الرسائل‘‘ میں لکھتےہیں : ’’ وہ مصحف علی (جسے ان کے نزدیک سیدنا علی رضی اللہ نے جمع کیاتھااور یمن کے ایک میوزیم میں موجودہے)بالکل اسی طرح ہےجوآج ہمارےپاس قرآن موجودہے،اس میں ایک حرف کی بھی کمی بیشی نہیں ہے سوائے اس آیت [يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ][سورہ التوبہ:123] کے وہ مصحف علی میں یوں درج ہے:(اقتلواالذین یلونکم من الکفار) نمازکے معاملےمیں زیدی بہت حدتک شوافع سے مماثلت رکھتےہیں،صرف اتنا فرق ہے کہ یہ مالکیوں اثناعشریوں کی طر ح ہاتھ چھوڑ کر نمازپڑھتےہیں،رافضیوں کی طرح سجدہ گاہ ( کربلا کی مٹی)استعمال نہیں کرتے،بغیرتقیہ کے یہ لوگ اہل سنت کی اقتدامیں نمازیں ادا کرتےہیں،یمن میں یہ چیز عام ہے کہ زیدی اہل سنت کی مساجدمیں اور اہل سنت زیدیوں کی مساجدمیں جاکرنمازیں پڑھتےہیں بسااوقات یہ امتیازمشکل ہوجاتاہے کہ یہ مسجد اہل سنت کی ہے یازیدیوں کی۔ زیدی ،اہل سنت کی طرح نمازمیں دونوں طرف سلام پھیرنےکے قائل ہیں،اور اس کوضروری سمجھتےہیں ،زیدی شیعہ،رافضیوں کے برعکس متعہ ،سری نکاح کوحرام سمجھتےہیں ان کے نزدیک یہ افعال زنامیں سے ہیں۔ زیدی شیعہ تقیہ کے اس طرح قائل نہیں جس طرح یہ چیز رافضیوں میں رائج ہے بلکہ انہوں (رافضیوں) نے اسے دین کاحصہ بنالیاہے، بلکہ جو روایات اس سلسلےمیں امام جعفر صادق ،امام ہادی رضااور امام حسن عسکری سے زیدی کتب میں آئی ہیں وہ تقیہ کے ذکرسے خالی ہیں،زیدی شیعہ نہج البلاغہ ،صحیفہ سجادیہ وغیرہ کومانتےہیں،اورامام رضا کی کتاب ’’صحیفۃ الرضا‘‘جوکہ ایک معتبرکتاب ہےاس کوبھی مانتےہیں،رافضیوں کی دعائے کمیل(یہ دعا،کمیل بن زیادکی طرف منسوب ہےجو شیعہ حضرات کے ہاں بہت معروف ہے، یہ لوگ ہر جمعہ اور نصف شعبان کی رات میں اسے پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں)