کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 88
اسکول دراصل غیر اردو لفظ ہے اور اردو میں اسی معنی میں برصغیر میں مدرسہ کا لفظ استعمال کیاجاتا رہا ہے۔لہذا لوگوں کو یہ شعور دلایا جائے کہ عرف میں جو اصطلاح اختیار کرچکے ہیں وہ تفریق کسی طور پر صحیح نہیں۔ اسکولز کے ٹیچرز مسلمان ،باشرع اور تعلیماتِ اسلامیہ سے بہراور ہوں تاکہ وہ باقی معاملات میں شریعت سے دور ی اختیار نہ کریں جو نئی نسل میں بگاڑ کا سبب بنے،دور حاضر میں اسکول کے ٹیچرز کے حوالے سے اس طرح کی کوئی شرط نظر نہیں آتی، جس کی وجہ سے نئی نسل بڑی تیزی سے اسلام سے دور ہوتی جارہی ہے۔ تمام اسکولوں کا معیار یکساں اور اسلامی خطوط پر مبنی ہو۔ اقلیتوں کے لئے اسلامیات سے استثناء کسی طور صحیح نہیں بلکہ ایک اسلامی ملک میںرہنے کا پاس کرتے ہوئے ،اورپھر اس ملک کے قانون کو اختیار کرتے ہوئے،اسی ملک سے تعلیم حاصل کرنے کا لحاظ کرتے ہوئے ان اقلیتوں پر یہ لازم قرار دیا جائے کہ وہ اسلامیات کو بھی دوسرے مضامین کی طرح پڑھیں۔ جس کافائدہ یہ ہوگا کہ جب ان کے سامنے اسلام کا تعارف اور علم آئے گا تو وہ اسلام کو قبول کریں گے۔ اگر استثناء ہی دے دی جائے تو اسلامی دعوت کو ان تک کیسے پہنچایا جائے گا۔ بلکہ اسلام اور مزید یہ کہ ایسی اقلیتوں کے لئے اسلام کے تعارف اور دیگر ادیان سے تقابل پر مبنی مستقل اور لازمی مضمون (Subject)ہونا چاہئے۔ اب دیکھا جارہا ہے کہ بعض اسکول اسلامی نصاب بناتے ہیں اور اسی کو سامنے رکھتے ہوئے اسکول سسٹم چلتا ہے،اگر ہماری مذکورہ بالا اصلاحات کو قبول کیا جائے،تو اس قسم کی نصاب سازی کی ضرورت نہیں رہے گی، بلکہ مدارس کے بھی علیحدہ قیام کی ضرورت نہ رہے گی کیونکہ پھر ہر مدرسہ اسکول ہوگا اور ہر اسکول مدرسہ ہوگا۔ البتہ موجودہ صورتحال میں جو لوگ اسلامی خطوط پر اسکول کی تعلیم کو فروغ دینےکی کوششیں کررہے ہیں اور اس طرز پر اسکول قائم کئے جارہے ہیں ان کا یہ کام قابلِ تحسین ہے۔ بہرحال دعا ہے کہ ایسا دن آئے اور تعلیمی میدان میں یہ تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں کہ ہر اسکول اسلام کا قلعہ ہو اور وہاں بیک وقت اسلام اور جدید علوم و فنون پڑھائے جائیں۔ اور اسکول پھر کالج