کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 86
اس مخدوع قسم کی ترقی پر دینی تعلیمات کو اختیار کیا اور اس کے حصول میں کمر بستہ ہوگئے ،رفتہ رفتہ دونوں قسم کی تعلیمات کے علیحدہ علیحدہ مراکز قائم ہوگئے،اب یہ صورت کیا روپ اختیار کرچکی ہے سب کے سامنے ہے،اسکول ہر طرح کی مذہبی پابندیوں سے آزاد اور مدارس پھر مزید مکاتب فکر کی تقسیمات میں بٹ گئے۔ اوراسکولوں کو مکمل طور پر چلانے کے لئے محکمہ تعلیم موجود اور دوسری طرف مدارس کے معاملات وزارت مذہبی امور کے سپرد کردئیے گئے، یعنی حکومتی سطح پر مدارس کا کوئی پرسان حال نہیں ،اس کےمقابل میں سعودیہ کی مثال لے لیں۔ ایک عرب ویب سائٹ کے مطابق 28/10/2010کی رپورٹ یہ ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب میں مجموعی طور پر 24 ہزار 450 حفظ قرآن کے نجی مدارس موجود ہیں جن میں لاکھوں بچے حفظ قران کریم کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ ان مدارس میں قراء اساتذہ کی تعداد 20 ہزار 919 ہے۔ بچوں کی بڑھتی تعداد کے تناسب سے مدرسین کی یہ تعداد ناکافی سمجھی جا رہی ہے۔ دوسری جانب حفظ قرآن کریم کے کل 23 ہزار 364 حکومتی مدارس کام کر رہے ہیں۔ ان سرکاری اور نجی مدارس میں طلبہ وطالبات کو قرآن کریم حفظ کرایا جاتا ہے۔ دیکھئے: www.alarabiya.net/articles/2010/10/28/123962.html اس رپورٹ میں سعودی حکومت کے ایک قابلِ تحسین عمل کا ذکر ہے کہ وہ مدارس کو بھی سرکاری سطح پر چلا رہے ہیں۔ دینی و دنیاوی تعلیم میں موجودہ تقسیم کےنقصانات : موجودہ صورت حال کو صرف بنظر طائر ہی دیکھیں تو کئی ایک نقصانات کی وجہ مذکورہ تفریق و تقسیم ہی معلوم ہوتی ہے،جیساکہ چند ایک نکات پیش کئے جاتے ہیں۔ علماء کا دائرہ کار محدود ہوگیا اور وہ مساجد و مدارس تک محدود ہوکر رہ گئے جبکہ ان کے شایان شان یہ تھا کہ وہ ہر حرفت و صنعت اور شعبہ ہائے زندگی کے رؤوساء میں ہوتے۔ اسی طرح اس تقسیم نے نئی نسل کو اسلام سے دور کردیا ، اس لئے کہ عصری کالجز اور یونیورسٹیز اسلامی تعلیم کو