کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 83
بالکل موافق ہے جبکہ بائیبل کا نظریہ اس حوالے سے کئی ایک خامیاں رکھتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ڈاکٹر ولیم کیمبل کے درمیان قرآن اور بائیبل میں سائنسی خامیوں پر بحث ہوئی، بحمدللہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے یہ ثابت کیا کہ قرآن مجید میں کوئی سائنسی طور پر خامی نہیں ہے۔ ڈاکٹر ولیم کیمبل لاجواب ہوگیا تھا اور بائیبل میں موجود سائنسی خامیوں کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اسی طرح سائنس کی دیگرشاخوں میں سے بھی ہر ایک کا اثبات ملتا ہےاور اہل علم نے ان پر بحث کی ہے،مثلاً سمندر میں میٹھے اور کھارے پانی کا ذکر: (الرحمٰن: 19)فلکیات: سورج اور چاند کی منازل ،موسموں کا ذکر وغیرہ، ان تمام کو یہاں جمع نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ہمارا یہ موضوع ہے۔ جو امثلہ پیش کی گئی ہیں ،ان سے ہمارا مقصود واضح ہے۔ بہرحال ان تمام تر تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ دین اسلام کا ایک ایک حکم ہر لحاظ سے حکمت پر مبنی ہے،حتیٰ کہ سائنس بھی اسلامی احکامات کی فرع ہی کی حیثیت رکھتی ہے۔ تو اسلام کا سائنسی احکامات بیان کرنااور سائنس کی تمام شاخوں کی اصل قرآن و سنت میں موجود ہونا، یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ دین اسلام میں یہ تفریق نہیں، پھر اپنے اپنے دور میں مسلمان مؤجدین، سائنسدانوں، ریاضی دانوں کا ان فنون میں مہارت رکھنا بھی واضح کردیتا ہےکہ موجودہ علوم میں دین اور سائنس کے درمیان حائل دیوار کوئی حیثیت نہیں رکھتی ، لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ اوائل اسلام سے ایک عرصہ تک یہ تفریق ہر گز نہ تھی کہ ان دونوں کے لئے علیحدہ علیحدہ مقام ہوں اور نصاب سے لے کر طرز تعلیم اور معیار تک علیحدہ ہو،ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ بلکہ آج بھی کئی ممالک اس قسم کی تقسیم سے پاک ہیں۔ (7)مسلمان سائنسدان اسلامی نصوص میں ان سب کی اصل ہونے کے بعد یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمان ان علوم سے وابستہ رہے ہیں اور ایک وافر حصہ ان علوم میں مسلمانوں کا رہا ہے،جیسا کہ کتبِ سائنس وغیرہ میں مسلمان سائنسدانوں کا تذکرہ دیکھا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر: مسلمان بائیولوجسٹ : جابر بن حیان نے ’’النباتات‘‘ اور ’’الحیوان‘‘، نامی کتابیں بالترتیب پودوں اور جانوروں پر