کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 78
کے شاگرد تھے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ قضاء کے لئے اسلام کے شرائط کچھ اورہیں، جس میں اول یہی ہے کہ دین داری اور دینی علوم میں مہارت۔لیکن ہمارے اس اسلامی ملک میں قضاء کے لئے نہ ہی دین ضروری ہے، اور نہ ہی دین داری بلکہ ضروری ہے تو بس قانون (Law) کی کسی پروفیشنل یونیورسٹی کی ڈگری۔ اور ظاہر سی بات ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان وکلاء نے جن قوانین کی بالادستی کی بات کرنی ہے، ان تمام پر اسلام کی مہر ثبت نہیں ہے۔ جب اسلام اور وکالت و قضاء دو علیحدہ چیزیں نہیں تو عملی طور پر ان دونوں کو علیحدہ کیوں سمجھا جا رہاہے؟ وکیل و جج کے لئے بجائے اس کے کہ کسی مدرسے سے سرٹیفائیڈہونا ضروری قرار دیا جاتا ،الٹا مدرسہ میں پڑھائے جانے والے اسلامی قوانین کے ماہر عالم کو حقارت سے دیکھا جاتا ہےجو اسلامی نقطۂ نظر سے یہ صلاحیت (Ability) رکھتا ہے کہ اسے قاضی (Judge) ہونا چاہئے تھا، یہ تقسیم اور پھر ایسی تقسیم جوکہ ظلم پر مبنی ہے، جس میں اسلامی علوم کے ماہر عالم دین کو مکمل طور پر اپنے شایان شان اعزاز سے محروم کردیا جاتاہے۔لہذا اسے اسلامی علوم کی ایک شاخ سمجھنا چاہئے،اور اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے اس میں اسلامی قوانین کا ہی نفاذ ہونا چاہئے،جوکہ موجودہ صورت حال جو تحصیلِ ڈگری کی ہی بنادی گئی ہے، اس صورت حال میں اسلامی قوانین کےنفاذ کا راستہ یوں سمجھ لیں کہ اصل جڑ سے ہی مسدود ہے۔آئیے ہم دلائل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ قضاء و قانون دراصل اسلامی علوم کی ہی ایک شاخ ہے۔ ہر نبی اپنے دور کا قاضی بھی تھا: سیدنا داؤد علیہ السلام قاضی تھے، ان کے فیصلوں کی مثال قرآن مجید میں موجود ہے: {يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭاِنَّ الَّذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا نَسُوْا يَوْمَ الْحِسَابِ 26؀ۧ ][ص:26] ترجمہ: (ہم نے ان سے کہا) اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے لہٰذا لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کرنا اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرنا ور نہ یہ بات تمہیں اللہ کی راہ سے بہکا