کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 74
جائیں اور دوسری طرف دینی مدارس؟؟اور یونیورسٹی میں وہ جائے جو یورپ سے متاثر ہے اور مدرسہ میں وہ جائے جو دین سے متاثر ہے۔ کیا اس طرح کی کوئی تقسیم موجود تھی ؟؟زیر نظر تحریر میں ان شاء اللہ ہم اسی تقسیم کی حقیقت پر روشنی ڈالیں گے۔ یہ بات واضح ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کالجز اور یونیورسٹیز کی تعلیمات کےمقصد کو اگر دو لفظوںمیں بیان کیا جائے،تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ اُن علوم و فنون کا علم جس کے ذریعے سے ہم دنیاوی طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہوںاور امرِ واقع یہ ہےکہ آج یونیورسٹی کا طالب علم اسی واحد مقصد کے حصول کے لئے حد درجہ مستغرق ہے اور اس نشے میں ازسر ہی دینی تعلیم سےدوری اختیار کئے ہوئے ہے۔ اور اب معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ آج کا یہ یونیورسٹی کا طالب علم صرف نام کا ہی مسلمان رہ گیا اور دینی مبادیات سے بھی مکمل طور پر ناآشنا ہے۔ ہمارا یہ سوال کہ کیا اوائل زمانہ میں دینی و دنیاوی تعلیمی اداروں کی تقسیم تھی؟ جواب اس کا یہ ہےکہ اس قسم کی کوئی تقسیم نہیں تھی۔ اور نہ ہی یہ تقسیم کسی طور صحیح ہے۔ دور ِاوائل میں مسلمان جہاں دینیات سے مکمل شغف رکھتے تھے، وہیں وہ دنیاوی علوم و فنون میں ، بدرجہ اتم مہارت رکھتے تھے،خواہ دنیاوی علوم و فنون سے متعلقہ کوئی بھی عنصر ہو، کسی عنصر کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مسلمان اس سے نا آشنا تھے، اور یہاں یہ بات بھی واضح کی جاتی ہے کہ دین اسلام دنیاوی علوم و فنون کو سیکھنے ،ان میں مہارت حاصل کرنے سے قطعاً نہیں روکتا، البتہ یہ ضرور ہے کہ جس علم و فن کی جو حیثیت ہے ، اسلام اس سے زیادہ اس کو حیثیت نہیں دیتا۔ مسلمانوں کا ان علوم و فنون میں بھرپور حصہ لینا، اور شریعت کا اس سے نہ روکنا اس بات کی دلیل ہے کہ دنیاوی تعلیم کو دین سے ماوراء نہیں سمجھا جا سکتا ۔مسلمانوں کا اس حوالےسے کس طرح سے حصہ رہا ہے؟ یہ درج ذیل نکات سے ثابت کئے دیتے ہیں۔ (1)مسلمانوں کی ایجادات: ہمارے مؤقف کی تائید میں سب سے واضح مثال مسلمانوں کی ایجادات کی ہے۔ مسلمانوں کی ایجادات میں سےصرف ایک مثال جوکہ قرآن مجید سے ثابت ہونے کی وجہ سے سب سے بڑی مثال