کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 66
کی وجہ سے نہیں رکھ پاتی تواگلے رمضان سے پہلے شعبان میں انہیں رکھ لیتی‘‘[1] اس سے معلوم ہواکہ قضاکے وقت میں تنگی نہیں بلکہ وسعت ہے،اگر وسیع وقت بھی گزرگیاتورمضان کے بعد فوراً ان کی قضاکی فکرکرےاس میں سُستی نہ کرے۔ :جولوگ اس ماہ کو پالیں وہ روزہ رکھیں گےاورجو کسی شرعی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے وہ قضاکریں گے ایک تیسری قسم ان ضعیف وناتواں لوگوں کی ہے جونہ روزہ رکھ سکتےہیں اورنہ ہی قضاکرسکتےہیں ان کےلیے تخفیف کی گئی ہےجیساکہ اللہ پاک کافرمان ہے: [وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ ][سورۃ البقرہ:184] سیدنا عبداللہ بن عباس رضی الله عنه فرماتےہیں اس آیت سے مرادوہ لوگ ہیں جوروزہ کی طاقت نہیں رکھتےوہ اپنے ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کونصف صاع (625 گرام تقریباً)کھاناکھلائیں۔‘‘[2] اس حکم میں وہ مریض بھی شامل ہے جس کے شفایاب ہونےکی امیدنہ ہو،حاملہ ،مرضعہ جنہیں اپنے شیرخواربچوں کی صحت کےنقصان کا خدشہ ہےوہ بھی روزہ افطارکرلیں اورہرروزےکےبدلےایک مسکین کوکھاناکھلادیں یہ کھاناکھلانا روزہ نہ رکھنے کی وجہ سےہے،بعدمیں روزہ کی قضادیں گی،اسی کوعلامہ امام ابن قیم رحمہ اللہ نےمختلف صحابہ کرام سے نقل کیاہے[3]۔ مسائل اعتکاف یہ ایک مشروع اورمسنون عمل ہے اس کی فضیلت بھی حدیث میں آئی ہے جیساکہ ایک حدیث میں ہے: ’’من اعتکف یوماابتغاء وجہ اللہ جعل اللہ بینہ وبین النار ثلاث خنادق کل خندق أبعدمابین الخافقین‘‘ [4]
[1] صحیح بخاری:1950،صحیح مسلم:2682 [2] صحیح بخاری:4505 [3] زادالمعاد29/2 [4] { FN 878 }معجم اوسط طبرانی7/220،حدیث:7326