کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 60
قراردیاہے۔[1] اگرکوئی شخص تاخیرسے بیدار ہوااسےجنابت کاعارضہ لاحق ہوگیاہےتوپہلے وہ سحری کر ے بعدمیں طلوع فجرکےبعدغسل جنابت کرلے۔[2] اگرکوئی شخص طلوع فجرکےبعدبیدارہواہےتووہ کھائےپیئے بغیرروزہ رکھ لےکیونکہ سحری کاوقت ختم ہوچکاہے،اوراگردوران کھانااذان ِفجرشروع ہوجائے تووہ اپناکھاناپوراکرےجیساکہ حدیث میں ہے: ’’ إذاسمع أحدکم النداء والإناء علی یدہ فلایضعہ حتی یقضی حاجتہ منہ‘‘[3] ’’جب تم میںسے کوئی فجرکی اذان سنے اورکھانےکابرتن اس کےہاتھ میں ہوتووہ اس برتن کواس وقت تک نہ چھوڑےجب تک وہ اپنے کھانے کی حاجت پوری نہ کرلے‘‘۔ سحری میں کھجورکوشامل کرنااچھاہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوبہترین کھاناقراردیاہے ’’نعم سحورالمؤمن التمر ‘‘[4]’’مؤمن کی بہترین سحری کھجورہے‘‘۔ (7)افطاری کا بہترین وقت: غروب آفتاب ہوتےہی روزہ افطار کرلیناچاہیے،اس میں احتیاطی تاخیردرست نہیں ہے (جیساکہ کچھ لوگوں کی عادت ہےکہ احتیاطی طورپہ ایک دومنٹ تاخیرسےروزہ افطار کرتےہیں) حدیث میں ہے: ’’ لایزال الناس بخیرماعجلواالفطر۔‘‘[5] ’’لوگ اس وقت تک خیرپررہیں گے جب تک وہ روزہ کےافطارمیں جلدی کرتےرہیں گے۔‘‘ ایک حدیث قدسی میں ہے : ’’إنَّ أحبَّ عبادي إلیّ أعـجلھم فطرا۔‘‘[6]
[1] تنبیہ الأفھام بشرح عمدۃ الأحکام، صفحہ:463 [2] صحیح مسلم:1109،سنن ابی داؤد:2390 [3] سنن ابی داؤد:2350 [4] سنن ابی داؤد:2345،ابن حبان:3475 [5] صحیح بخاری :1957،صحیح مسلم :2549 [6] سنن ترمذی،کتاب الصوم،باب ماجاءفی تعجیل الافطار،حدیث:704۔