کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 59
(5)روزےکاآغاز: ’’ فجرِثانی‘‘ جسےصبح صادق بھی کہتےہیں کے طلوع ہوتےہی روزے کا آغازہوجاتاہےاور اختتام غروب آفتاب کے ساتھ ہوتاہے۔ جیساکہ ارشادِباری تعالی ہے: [وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۠ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ ] [سورہ البقرہ:187] ’’اور کھاتے پیتےرہو یہاں تک کہ صبح کاسفیددھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہوجائے، پھررات تک روزے کومکمل کرو۔‘‘ اس آیت میں’’ خیط ابیض‘‘ اور’ ’ خیط اسود ‘‘سے مراد صبح کے اجالے کارات کی تاریکی سے الگ ہوناہے ۔ (6)سحری کرنا: یہ وقت نہایت برکت والاہے اس موقع کوغنیمت جانتےہوئے نوافل ،اذکار،دعاوغیرہ میں صرف کرناچاہیےکیونکہ اللہ تعالیٰ اس وقت آسمانِ دنیاپہ نزول فرماتاہے۔ شریعت نے سحری کھانےکی ترغیب دی ہے اوراس کھانے کوبابرکت قراردیاہےجیساکہ حدیث میں ہے:’’تسحروا فإن فی السحوربرکۃ‘‘[1]سحری کیاکرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔ ایک روایت میں اسے یہودکی مخالفت قراردیاہے جیساکہ ایک حدیث میں ہے: ’’ إن فصل ما بين صيامنا وصيام أهل الكتاب أكلة السحور۔‘‘[2] ’’ہمارے اوراہل کتاب کےروزوں میں یہ فرق ہے کہ وہ سحری نہیں کرتے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےا س میں تاخیرکی ترغیب دلائی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سحری اوراذان میں جووقفہ ہوتاتھا وہ پچاس آیتوں کے بقدرہوتاتھااس وقفہ کو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے چھے منٹ کے برابر
[1] صحیح بخاری:1923،صحیح مسلم:2524 [2] سنن نسائی:2166