کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 52
اس طرح کی متعدد مثالیں کتب حدیث میں مروی ہیں،جن سے معلوم ہوتاہے کہ ان حضرات نے برادری ،حسب ونسب،مال ودولت،حسن وجمال اوردنیاداری کے بتوں کوتوڑ کررشتوں کی بنیاد صرف تقویٰ اوردینداری کوقراردیا،کیونکہ اس کافائدہ یہ ہوتاہے کہ متقی انسان کواگر بیوی سے محبت ہوگی تواس کی عزت کرےگااور اگر نفرت ہوگی تو اس پر ظلم کرنےسے بازرہےگا۔ اب ہم نکاح کے دوسرے پہلو کاجائزہ لیتےہیںکہ جولوگ دین اورتقویٰ کے معیارکونظرانداز کرکےمحض دنیاوی مفادات اور برادری کارکھ رکھاؤ پیش نظر رکھتےہیں ،ایسے رشتوں کاکیاانجام ہوتاہے،اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے: ’’جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کاپیغامِ نکاح آئے جس کادین اوراخلاق تمہیں پسندہو تو اسے اپنی لڑکی کارشتہ دےدو،اگر تم ایسانہیں کروگے توزمین میں فتنہ اوربڑافساد ہوگا‘‘[1]۔ اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ رشتہ کرتے وقت تقویٰ،اخلاق وکردار اوردینی اقدار کوپیش نظر رکھنا چاہیے، اگردین کونظرانداز کرکے حسب ونسب ،خاندان،برادری،حسن وجمال اور مال ودولت کو معیار بنایا گیا تو یہ کئی ایک فتنوں اورآزمائشوں کا پیش خیمہ ہوگا،کئی لڑکیاں بے نکاح رہ جائیں گی جو ان کےلیے مصیبت اورفتنہ کاباعث ہوگا،نیزدینی لحاظ سے نیک نہ ہونے کی وجہ سے جھگڑے پیداہوں گے پھر یہی مال وجمال اور خاندانی تفوق گلےکاطوق اورپاؤں کی بیڑی بن جائےگا،ہم آئے دن اس طرح کے بیسیوں واقعات کا مشاہدہ کرتے ہیں جو خاندانوں کے ٹکراؤ اورگھروں کی بے آبادی کاباعث ہوتےہیں۔ ہم ذیل میں صرف ایک واقعہ ذکرکرتےہیں جودیدۂ عبرت کےلیے سرمۂ بصیرت کاباعث ہے،اس کی روشنی میں ہم نے اپنے کردار کابس جائزہ لیناہے،واللہ المستعان۔ میرے ایک انتہائی قریبی عزیز نےبیان کیاکہ ہمارے تین بھائیوں کی ایک اکلوتی بہن تھی،ہمارے والدین نے اس کی پرورش اور تعلیم وتربیت پر خاص توجہ دی،بی اے کاامتحان پاس کرنےکےبعد ہم نے اس کے رشتے کے متعلق تلاش شروع کی،رشتوں کے متعلق ہماری برادری
[1] سنن ترمذی:کتاب النکاح