کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 51
رشتوں کےمتعلق ہمارایہی رجحان ہے کہ دولت، خاندان اور برادری کے چکرسے آزاد ہوکردین اور تقویٰ کوپیش نظررکھاجائے،اس سلسلہ میں حضرات صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی مثالیں پیش خدمت ہیں، عرب معاشرہ میں جب کوئی غلام آزاد ہوجاتاتو اسے اور اس کی اولاد کوآزادافراد سے فروتر خیال کیاجاتاتھا،سیدنا اسامہ  کے والدگرامی سیدنا زیدبن حارثہ  اور ان کی والدہ ماجدہ سیدہ ام یمن رضی اللہ عنھا پہلے غلام تھے،پھر انہیں آزادی ملی تھی،اس کے علاوہ سیدنا اسامہ  رنگ کے بھی کچھ سانولےتھے،رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ بنت قیس  کوان سے نکاح کرنے کے متعلق مشورہ دیا،چونکہ ان کے خاوندپر غلامی کاٹھپہ لگاہواتھا، اس لیے ابتدائی طور پرانہیں یہ رشتہ اچھانہ لگا اوراپنی ناگواری کااظہارکرتےہوئےکہا،اسامہ،اسامہ اس سے میں نکاح کرلوں!،اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تیرے لیے بہترہے‘‘[1]۔ آخرکار انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کااحترام کرتےہوئے سیدنا اسامہ  سے نکاح کرلیا،وہ خود اس نکاح کے متعلق فرماتی ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے اس نکاح میں بھلائی اور برکت ڈال دی حتیٰ کہ مجھ پر رشک کیاجانے لگا‘‘[2]۔ سیدنا اسامہ بہت ہی ملنسار اورحسن خلق کے حامل تھے،اس لیے ذات پات کے اعتبارسے ہم پلہ نہ ہونےکے باوجود سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا ان پر فخرکیاکرتی تھیں کہ خاوندہوتوایساہو۔ اسی طرح سیدنا سالم رضی اللہ عنہ ایک انصار عورت کے آزاد کردہ غلام تھے،سیدنا حذیفہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنامنہ بولا بیٹا بنایاتھا،انہوں نے اپنی حقیقی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ سے ان کا نکاح کردیاتھا۔[3] اس حدیث پرامام بخاری رحمہ اللہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیاہے ’’ دین میں ہم پلہ ہونا‘‘[4]۔
[1] سنن ابن ماجہ:کتاب النکاح [2] سنن ابن ماجہ :کتاب النکاح [3] صحیح بخاری: کتاب النکاح [4] صحیح بخاری:کتاب النکاح،باب نمبر16