کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 50
ملاحظہ فرمائیں، یہ واقعہ میرےایک قریبی دوست کارقم کردہ ہے:’’ میری بہن کےلیے ایک اچھارشتہ آیا، لڑکا برطانیہ میںملازمت کرتاتھا،تعلیم یافتہ،خوبصورت برسرِروزگاتھا، پاکستان میں رہنے والےاس کےوالدین اپنے بیٹے کےلیے بہتررشتہ کی خاطربھاگ دوڑ کررہےتھے،تلاش کرتے کرتے نظرِانتخاب ہمارے گھرانےپر پڑی چنانچہ یہ رشتہ منظور کرلیاگیا، برطانیہ میں ملازمت کی بناپر لڑکا ایک محدود وقت کےلیے پاکستان آسکتاتھا،اس لیے یہ طے پایا کہ وہ نکاح سے ایک ہفتہ قبل پاکستان آئےگا اورنکاح کے چندروز بعد اپنے اہل خانہ کے ساتھ واپس برطانیہ چلاجائےگا،والدمحترم نے احتیاطا یہ شرط رکھ دی تھی کہ لڑکے سے ملاقات پراگرکوئی بےاطمینانی والی بات سامنے آئی تو عین موقع پربھی معذرت کی جاسکتی ہے،اس شرط کو فریقِ ثانی نے بخوشی قبول کرلیا،آخرکار نکاح سے ایک ہفتہ قبل حسبِ پروگرام لڑکا برطانیہ سے پاکستان آیا اوروالدمحترم سے ملاقات ہوئی، حسنِ صورت ،اندازِگفتگو اورآدابِ معاشرت کے اعتبار سے وہ ہمارے تصورات سے بھی بالاترتھا،اس پہلوسے اطمینان حاصل ہوالیکن چادراورچاردیواری کے لحاظ سے آزادخیالی محسوس ہوئی، ہمارے ہاں دینی ماحول کی وجہ سے والدمحترم کوبہت تشویش لاحق ہوئی،رشتہ داروں نے اطمینان دلایاکہ رشتہ ہونےکےبعد اس کمی کی تلافی ہوجائےگی اس بناپرایک پڑھے لکھے برسرِروزگارشتےکوجواب دینامناسب نہیں ہے،لیکن ہمارے والدمحترم دینی معاملات میں بڑے حساس تھے،اس لیے ان کی تشویش میں مزیداضافہ ہوافرمانے لگےکہ برطانیہ کےنیم عریاں ماحول میں اس کی آزاد خیالی کے بڑھنےکااندیشہ ہے،آخرکارانہوںنے اپنی دینی غیرت کی وجہ سے نکاح سے ایک دن قبل اس رشتہ کورد کردیااورانہیں صاف صاف جواب دےدیا،اگرچہ نکاح کی تیاریاں اپنے آخری مراحل میں پہنچ چکی تھیں،کھانے وغیرہ کے انتظامات بھی مکمل ہوچکےتھےلیکن والد محترم کی حمیتِ ایمانی نے ہرقسم کی قربانی دے کر اسے برداشت کیا،شایداس کی برکت تھی کہ اس قربانی کے چھ ماہ بعد مدینہ منورہ سے ہمارے خاندان کاایک رشتہ آیاجو قرآن کریم کاحافظ اورعالم دین تھا،والدمحترم نے استخارہ کرنےکےبعد وہ منظورکرلیا اس طرح ہماری ہمشیرہ کاان سے نکاح ہوگیا،اب وہ صاحبِ اولاد اورمدینہ طیبہ میں اقامت گزین ہے‘‘۔