کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 48
کے گھرجاؤ،اسے میراسلام کہو اور میرا پیغام دوکہ وہ اپنی بیٹی کی شادی تجھ سے کردے،سیدنا جلیبیب خوشی خوشی اس انصاری کے گھر پہنچ جاتےہیں،دروازے پہ دستک دی،اہل خانہ پوچھتےہیں تم کون ہو؟سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ نے جوابا عرض کیا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ لوگوں کو سلام بھیجاہے، یہ سن کر انصاری صحابی خوشی سے پھولانہیں سماتاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سلام بھیجاہے،یہ تومیرےلیے خوش قسمتی کی بات ہے،پورے گھرمیں خوشی کی لہردوڑ گئی ،اس خوشی میں سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ کواپنے گھر لےجاتےہیں،سیدنا جلیبیب نے اپنی بات مکمل کرتےہوئے کہا: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں سلام کے ساتھ یہ پیغام بھی بھیجاہےکہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو‘‘،صاحبِ خانہ نے جب یہ بات سنی توسناٹے میں آگئے،کیایہ شخص میراداماد بنےگا؟اس کانہ مال ودولت نہ حسن وجمال ،نہ قدکاٹھ ،نہ حسب ونسب اورنہ منصب اورکاروبار !کہنےلگامیں اپنے گھروالوں سےمشورہ کرکےتمہیں جواب دیتاہوں،انہوں نے اپنی اہلیہ کوبلایااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاپیغام سنایاکہ آپ فرماتےہیں کہ ’’ اپنی بیٹی کی شادی جلیبیب سے کردو‘‘ ۔ یہ حسنِ اتفاق تھاکہ ساتھ والے کمرے میں پسِ پردہ ان کی دخترِنیک اختر اپنے والدین کی گفتگوسن رہی تھی،انصاری کی اہلیہ نے کہاہم اپنی بیٹی کی شاد ی جلیبیب سے کیسے کردیں جبکہ وہ خوبصورت بھی نہیں،مال ودولت کی ریل پیل بھی نہیں، بڑاخاندان بھی نہیں،اورکسی منصب پرفائزبھی نہیں،ہم نے فلاں فلاں خاندان کی طرف سے آنے والوں کومستردکردیاہے،میاں بیوی دونوں اس قسم کی گفتگو کررہے تھے، بیٹی بھی پردےکےپیچھے کھڑی گفتگوسن رہی تھی اوراس ماجرےکامشاہدہ کررہی تھی جب سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ مایوس ہوکرواپس جانے لگےتولڑکی نے معاملے کی نزاکت کااحساس کرتےہوئے اپنے والدین سے مخاطب ہوکرآہستہ کہا:’’ کیاتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاحکم ٹالنےکےلیے سوچ وبچارکررہےہو، آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپردکردیں، وہ جہاں چاہیں اپنی مرضی سے میری شادی کردیں،وہ مجھے ہرگزضائع نہیں کریں گے‘‘۔ بیٹی کے پاکیزہ جذبات سن کروالدین نے بھی سرجھکادیا،کچھ دیرپہلے تک ان کے ذہن میں نہ تھاکہ وہ اس رشتے کوقبول نہ کرنےکی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم کونظراندازکرنےوالےبن جائیں