کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 25
[الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ،مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ][سورۃ الناس:6-5] ’’جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے، (خواہ وہ) جنات سے (ہو) یا انسانوں میں سے‘‘ شیاطین الجن کو اللہ تعالی نے انسانوں کو گمراہ کرنے کی قدرت دی ہے علاوہ ازیں ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان اس کا ساتھی ہوتا ہے جو اس کو گمراہ کرتا رہتاہے۔[1] وسوسے کے ذریعے سے شیطان مردود ہنستے بستے گھر اجاڑ دیتاہےبھائی بھائی کے متعلق بد گمانی کا شکار ہوتاہے توماں کا بیٹی ،باپ کا بیٹوں پر اعتماد قائم نہیں رہتااور تو اور بسااوقات یہ شکوک و شبہات میاں بیوی کے درمیان اس قدر زور پکڑ جاتے ہیں کہ یہ مثالی محبت کا رشتہ تارِ عنکبوت سے بھی زیادہ کچا دھاگہ ثابت ہوتاہے اور آن واحد میں اس پائیدار محبت کے تار وپوبکھر جاتےہیں۔ لوگ وسوسوں کی لپیٹ میں آکر اپنے ہاتھوں سے اپنا گلشن آگ کے حوالے کربیٹھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہےکہ اپنی طبیعت کو شگفتہ رکھا کریں ، فوری اقدام کی بجائے مثبت انداز میں سوچتےہوئے بات کو آگے بڑھایا جائےاور اگر فریق ثانی زیادہ غیض وغضب کا مظاہر ہ کرے تو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بجائے خاموشی اختیار کر کے بات کو مناسب انداز میں ختم کردیا جائے ، یہاں یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وسوسوں سے گھبراہٹ میں مبتلا ہونے کی بجائے نبوی تعلیمات کے ذریعے ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ وسوسوں کا آنا انسان کے ایمان کی دلیل ہے، شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کتاب الایمان میں اسی موضوع کے حوالے سے رقمطراز ہیں :’’طالب علم اور عبادت گزار لوگوں کو ایسے وسوسے اور شبہات آتے ہیں جو دوسرے لوگوں کو پیش نہیں آتے کیونکہ دوسرے لوگ تو اللہ تعالی کی شریعت اور اس کے راستے پر چلتےہی نہیں ہیں بلکہ وہ تو اپنے رب سے غافل ہوکر خواہشات ِ نفس کے پجاری بن گئے ہوتے ہیں اور یہی شیطان کامطلوب و مقصود ہے ، لیکن اس کے بر عکس جو لوگ علم و عبادت میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، شیطان ان کا دشمن ہے اوروہ انہیں اللہ تعالی سےدور لے جانا چاہتا ہے[2]۔ لہٰذا جب بھی کسی کو پریشان کُن خیالات ستائیں تو لاپرواہی یا بے احتیاطی کی بجائے ان شیطانی
[1] تفسیر احسن البیان۔1757 دیکھئے تفسیر ابن کثیر: 8/539 [2] فتاوی ارکان الاسلام للعثیمین، ص:46، اردو