کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 22
کرتاہے ، اسے بیمار کہا جاتاہے، ڈرایا بھی جاسکتا ہے ، جسم کے کسی حصے میں مستقل درد شروع ہوجاتاہے جو ڈاکٹر حضرات کی سمجھ سے بالاتر ہوتاہے حتیٰ کہ انسان کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے اور اس سارے عمل کےلیے ارواح خبیثہ اور جنات وشیاطین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔[1] اس جادو میں انسان کو دو طرح سےتکلیف دی جاسکتی ہے 1چمٹ کر: فرمان باری تعالی ہے : [اَ لَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ] ’’ جو لوگ سود کھاتے ہیں ۔ وہ یوں کھڑے ہوں گے۔ جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر اسے مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔‘‘[البقرۃ:275] امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی شرح میں لکھتے ہیں : ’’لایقومون من قبورھم یوم القیامۃ إلاکما یقوم المصروع حال صرعہ وتخبط الشیطان لہ۔‘‘[2] ’’سود خور روز قیامت اپنی قبروں سے یوں کھڑے ہوںگے جیسے مرگی زدہ اس وقت کھڑا ہوتاہے جب شیطان اسے چُھو کر پاگل بنادیتاہے‘‘ اس صور ت میں شیطان اور جن وغیرہ انسانی جسم پر قبضہ حاصل کرکے اسے اس حد تک خبطی بنا دیتاہے کہ انسان کا خود پر بھی کوئی اختیار نہیں رہتا اور وہ دیوانگی میں ایسی حرکات کا ارتکاب کرتاہے جن کا تندرستی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتاپھر جب ا سے اس تکلیف سے نجات ملتی ہے اور اسے ان حرکات کا بتایا جاتاہے جو اس سے عالم دیوانگی میں سرزد ہوئی ہیں تو سرے سے اس کا انکار کردیتاہے کہ اس نے ایساکچھ کیا ہے۔ سیدناعثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے طائف کا
[1] دیکھیئے: الموسوعۃ الفقهیۃ الکویتیۃ24/262 [2] تفسیر ابن کثیر1/712