کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 20
فرمانِ باری تعالی :[ فَيَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهٖ ] [البقرۃ:102] ’’پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند و بیوی میں جدائی ڈال دیں ‘‘ ب:مالی اعتبار سے کسی کو نامستحکم کرنا: اکثر اوقات احباب اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ نامعلوم طریقے سے ان کے زیورات یا نقدی گم ہو جاتی ہے ، یا پھر ان کے کاروبار میں بندش ہے جہاں ان پر پریشانیوں کے دیگر امکانات ہیں وہاں یہ امکان بھی قابل غور ہے کہ شاید کسی شیطان جادو گر یا اس کے کسی چیلے کی کارستانی ہوگی ۔ سیدنا ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صدقہ فطر (کے گلے) کی نگرانی کے لیے مقرر فرمایا تو شیطان ایک آدمی کی شکل میں مسلسل تین دن تک گلہ چوری کرنے کے لیے آتا رہا۔[1] ج: پریشان اور خوفزدہ کرنا: فرمان باری تعالی ہے: [فَاِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰي 66؀ ،فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى 67؀ قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى 68؀][طٰہ 66،67،68] ’’ اب تو موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ خیال گزرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے دوڑ بھاگ رہی ہیں ۔ پس موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے دل ہی دل میں ڈر محسوس کیا۔ ہم نے فرمایا کچھ خوف نہ کر یقیناً تو ہی غالب اور برتر رہے گا ۔‘‘ یہ خوفزدگی اور پریشانی صرف موسی ٰ علیہ السلام کے لیے نہیں تھی بلکہ تمام حاضرین اس جادوئی تاثیر کی وجہ سے گھبراہٹ اور بے چینی سے دوچار ہوگئےتھے، جیساکہ فرمان باری تعالیٰ ہے: [فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ وَجَاۗءُوْ بِسِحْرٍ عَظِيْمٍ ][الاعراف:116] ’’ پس جب انہوں نے ڈالا تو لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان پر ہیبت غالب کردی اور ایک طرح کا بڑا جادو دکھایا ۔‘‘
[1] صحیح بخاری۔ حدیث :3275