کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 131
’’یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اب لوٹ کر مدینے جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا ۔‘‘ اس ذلیل نے اپنے آپ کو عزت والا اور اللہ کے باعزت و مکرم رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کو (نعوذباللہ) ذلیل کہا تھا۔ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے فوراً تلوار نکالی اوربارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی‘ کہ کیا میں اس ذلیل کی گردن نہ ماردوں؟ لیکن سراپا رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اس کے حال ہر چھوڑ دو کہ لوگ کہیں یہ نہ کہیں کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ساتھیوں کو قتل کرواتا ہے[1]۔ اس وقت فتنے کے ڈر سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل سے احتراز فرمایا۔ اسے واقعہ ٔ افک میں تہمت کی حد سے مستثنیٰ کیاگیا، لیکن فرشتوں کا انتقام اس کی موت کا منتظر تھا۔ اور رب کا انتقام اس جیسے منافقین کو قیامت تک محرومِ رحمت کرکے دائمی عذاب میں مبتلا کرنا چاہتا تھا۔ اسی لیے اللہ نے قرآنِ مجید میں رہتی دنیا تک کسی بھی منافق کا جنازہ پڑھنے اور اس کےلیے دعائے استغفار کرنے سے منع فرما دیا، بلکہ یہ بھی فرمادیا کہ : [اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ] [النساء:145] ’’ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوںگے۔ ‘‘ [وَعَدَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ] [التوبہ:68] ’’اللہ تعالیٰ ان منافق مردوں، عورتوں اور کافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کر چکا ہے جہاں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔‘‘ یہاں یہودیوں کا ایک ملعون سردار کعب بن اشرف بھی رہتا ہے، جسے اس کی گستاخی کی سزا دینے کیلئے صحابہ رضی اللہ عنہم کا ایک دستہ خفیہ طریقے سے جاکر اسے قتل کرتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب اس گستاخ کی قوم کا ہر بالغ مرد قتل کردیا گیا، عورتیں اور بچے غلام بنا لیےگئے۔