کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 130
گلے میں رسی ڈال کر کھینچنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو انسانیت سوز سزاؤں میں مبتلا کرنا۔ شعب ِ ابی طالب کی قید بامشقت، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا درخت کے پتے اور چمڑے چبانا۔ طائف کی خوبصورت وادیوں میں اوباشوں کے ہاتھوں لہو لہان ہونا۔ اور پھر قتل کی سازش کے نتیجہ میں آخراس آبائی وطن کو خیرباد کہہ دینا۔ کیا یہ تمام باتیں گستاخیاں نہیں تھیں؟ اگر تھیں اور یقیناً تھیں تو ان تیرہ سالہ دورِ مکی میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ کتنی ریلیاں نکالیں؟ کتنے احتجاجی جلوسوں کی قیادت کی؟ کتنی ہڑتالیں کیں؟ کتنی سڑکیں بلاک ہوئیں؟ کتنے پتلے نذرِ آتش کیےگئے؟ ان سب میں سے کوئی ایک بھی احتجاجی راستہ اختیار نہیں کیا گیا، اس لیے کہ یہ احتجاج اسلام کے مزاج کے مطابق ہے ہی نہیں۔ اسلام کا مزاج ایسے لوگوں سے اپنے وقت پر انتقام لینے کا ہے۔ چاہے کچھ تاخیر ہی سہی، لیکن قتل سے کم کوئی سزا قبول نہیں۔ اسلام وقت کا انتظار کرتا، جذبات کی پرورش کرتا اور زخموں کو تازہ رکھتا ہے ۔ پھر جیسے ہی دشمن تہِ تیغ آتا ہے تو پھر کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ صرف ایک سال میں۔ جی ہاں! صرف اور صرف ایک ہی سال میں! مکہ کے تمام بڑے گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے اندھے کنویں کی خوراک ہوئے۔ یہ ہے اسلام کا انتقام! یہی تھا اس کا اصل وقت! اور یہی تھی تسکینِ قلب کی روش! برسوں سے احتجاجی ریلیاں، جلوس اور ہڑتالیں کرنے والوں نے آج تک کیا کیا؟ سوائے شورش برپا کرنے اور اپنی ہی قوم کا نقصان کرنے کے؟؟ آئیے! اب مدینہ طیبہ چلتے ہیں! یہاں اسلام ابھی اپنی آبیاری کے ابتدائی ایام میں ہے۔ سلطنت ِ اسلامیہ ابھی پرورش پارہی ہے۔ یہاں عبداللہ بن ابی جیسے منافقین بستے ہیں۔ جس نے تاریخِ عالم کی سب سے بدترین گستاخی کی۔ اور قرآن میں اللہ نے اس کی گستاخی کو ذکر کیا ۔ اس نے کہا تھا کہ [يَقُوْلُوْنَ لَىِٕنْ رَّجَعْنَآ اِلَى الْمَدِيْنَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ ۭ ][المنافقون:8]