کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 121
’’لا أعلم أحداً في تلامذة السيد نذير حسين المحدث أكثر تلامذة منه، قد ملأ بنجاب بتلامذته،كأنه هو حافظ الصحاح في هذا العصر‘‘ [1] شیخ الکل سید نذیر حسین صاحب محدث کے اتنے زیادہ شاگرد تھےکہ میںان کے برابر کسی کو نہیں جانتا ان کے شاگردوں نے پنجاب کو بھر دیا ہے گویا وہ اس زمانہ میں حدیث کے حافظ ہوں۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی فرماتے ہیں کہ ’’مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی(متوفی 1320ھ؁) نے دہلی میں سالہاسال حدیث کا درس دیا، آپ کے درس سے متعدد جلیل القدر ناشرین وشارحین حدیث پیدا ہوئے ، جن میں مولانا عبدالمنان وزیرآبادی جن کی کثیر تعداد پنجاب میں مصروف درس وافادہ تھے‘[2] مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری کثرتِ تدریس میںحضرت میاںصاحب کے تلامذہ میں مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری بھی شامل ہیں مولانا حکیم سید عبد الحی حسنی فرماتے ہیں : ’’حافظ عبداللہ محدث غازی پوری نے مدت تک آرہ(مدراس) میں تدریس فرمائی اور کامیاب واچھی زندگی گزاری پھر مولانا محمد بشیر سہسوانی کی وفات کے بعد دہلی تشریف لے آئے اور ایک زمانہ تک دہلی میں درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا پھر لکھنو چلے گئے اور لکھنو ہی میں ماہ صفر 1337ھ؁ رحلت فرمائی‘‘[3] علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’(درسگاہ مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی) کے نامور حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری ہیں جنہوں نے درس وتدریس کے ذریعہ خدمت کی اور کہا جاسکتاہے کہ مولانا سید نذیر حسین کے بعد
[1] مولانا شمس الحق عظیم آبادی(حیات وخدمات) ، ص: 29 تا 31 [2] ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدما ت ، ص: 20۔ نزھۃ الخواطر 8/500۔ تاریخ دعوت وعزیمت 5/359۔360۔ مولانا شمس الحق عظیم آبادی (حیات وخدمات) ص: 29۔30