کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 119
قاری عبد الرحمان پانی پتی، مولانا سید عالم علی مراد آبادی، مولانا مفتی عبد القیوم بن مولانا عبد الحی بڈھانوی، مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادی،مولانا نواب قطب الدین خاں دہلوی، مولانا احمد علی محدث سہارنپوری ، مولانا مفتی عنایت احمد کاکوروی، مولانا لطف اللہ علی گڑھی اور بہت سے علماء ہیں جن کی فہرست طویل ہے ۔ حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب کے تلامذہ میں تنہا مولانا سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی (متوفی 1320ھ) نے دہلی میں سالہاسال تک حدیث کا درس دیا۔[1]
میاں صاحب مسند تدریس پر
1258ھ میں حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی نے اپنے برادر اصغر حضرت شاہ محمد یعقوب دہلوی کے ساتھ مکہ معظمہ ہجرت کی تو ان کی مسند تحدیث پر شیخ الکل میاں سید محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی فائز ہوئے اور مکمل 62 سال تک کتاب وسنت کی تدریس وتعلیم میں یکسوئی کے ساتھ مشغول رہے اس عرصہ میں بلامبالغہ ہزاروں طلباء ان سے مستفید ہوئے ۔
[وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ]
اور ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل کر دین اسلام کی نشرواشاعت ، کتاب وسنت کی ترقی وترویج، شرک وبدعت کی تردید وتوبیخ اور ادیان باطلہ کا قلع قمع کرنے میں اپنی زندگی گزار دی ۔
حضرت میاں صاحب کے تلامذہ نے اس سلسلہ میں جو ذرائع اختیار کیے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔ درس وتدریس
2۔ وعظ وتبلیغ
3۔ تصنیف وتالیف
4۔ تصوف وسلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی تردید، اور صحیح اسلامی زہد وعبادت اور روحانیت کا درس
5۔ باطل افکار ونظریات کی تردید اور دین اسلام اور مسلک حق کی تائیدکا کام
[1] مقالات سلیمان 2/ 52۔53
[2] ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ، ص: 19تا20
[3] تراجم علمائے حدیث ھند، ص:138