کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 118
علامہ سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے شاہ محمد اسحاق کے درس میں بڑی برکت عطا فرمائی تمام بڑے بڑے علماء ان کے شاگرد تھے غدر کے بعد مکہ معظمہ ہجرت کرکے چلے گئے تھے اور وہاں بھی یہ سلسلہ فیض جاری رہا آخر وہیں 1262ھ؁ میں وفات پائی ۔ ان کے تلامذہ میں مولانا احمد علی محدث سہارنپوری ، نواب صدر الدین خاں دہلوی، نواب قطب الدین خاں ، مولاناسید نذیر حسین صاحب(بہاری) دہلوی، مولانا عالم علی مرادآبادی، شیخ محمد تھانوی، مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادی، مولانا قاری عبدالرحمان پانی پتی ہیں[1]۔ مولوی ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی(متوفی 1286ھ؁) فرماتے ہیں : ’’شاہ اسماعیل شہید کے اس مسابقت الی الجہاد وفوز بہ شہادت کے بعد ہی دہلی میں الصدر الحمید مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب کا فیضان جاری ہوگیا جن سےشیخ الکل میاں صاحب السید نذیر حسین محدث دہلوی مستفیض ہوکر دہلی ہی کی مسند تحدیث پر متمکن ہوئے۔‘‘[2] مولوی ابو یحی امام خاں نوشہروی اپنی دوسری کتاب’’تراجم علمائے حدیث ہند‘‘ میں لکھتے ہیں الصدر الحمید شاہ محمد اسحاق صاحب مہاجر مکی نبیرہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ....... جن سے تفسیر وحدیث میں سے بعض کتب سماعۃً واکثر قراءۃًپڑھیں[3]۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی فرماتے ہیں (ہندوستان میں) حدیث کی سب سے بڑی اشاعت حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب کے ذریعہ ہوئی جنہوں نے 1258ھ؁ میں مکہ معظمہ ہجرت کی اور ان سے حجاز کے ممتاز ترین علماء نے حدیث کی سند لی، آپ کے تلامذہ میں مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی، معروف بہ میاں صاحب
[1] تراجم علمائے حدیث ھند ، ص:135 [2] نزھۃ الخواطر 8/497۔498