کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 114
تشریف لائے اس وقت نواب سکندر جہاں بیگم وفات پاچکی تھیں اور ان کی دخترنواب شاہجہان بیگم فرمانروائے بھوپال تھیں ۔اس دفعہ علامہ حسین بن محسن کا بھوپال میں چار سال قیام رہا اور پھر اپنے ملک یمن چلے گئے یمن میں آپ کا قیام پانچ سال رہا پھر سہ بارہ بھوپال تشریف لائے اور بھوپال کو اپنا مستقل وطن بنالیا اس اقامت کے زمانہ میں ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں ان کے علم وفضل کی شہرت ہوئی اور بڑے بڑے علمائے کرام نے ان کی خدمت میں حاضر ہوکر علم حدیث میں ان سے استفادہ کیا[1]۔ شیخ محمد حسین بن محسن کا درس حدیث شیخ حسین بن محسن انصاری کے درس حدیث کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیل چکی تھی مولانا سید ابو الحسن علی ندوی شیخ حسین بن محسن انصاری کے درس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’شیخ حسین بن محسن کا وجود اور ان کا درس حدیث ایک نعمت خداوندی تھا جس سے ہندوستان اس وقت بلاد مغرب ویمن کا ہمسر بنا ہوا تھا اور اس نے ان جلیل القدر شیوخ حدیث کی یاد تازہ کردی تھی جو اپنے خداداد حافظہ، علوِّ سند اور کتب رجال پر عبورِ کامل کی بنا پر خود ایک زندہ کتب خانہ کی حیثیت رکھتے تھے ۔ شیخ حسین بہ یک واسطہ علامہ محمد بن علی شوکانی صاحب نیل الاوطار کے شاگرد تھے اور ان کی سندِ حدیث بہت عالی اورقلیل الوسائط سمجھی جاتی تھی ۔ یمن کے جلیل القدر اساتذہ حدیث کے تلمذ وصحبت، غیر معمولی حافظہ جو اہل عرب کی خصوصیت چلی آرہی ہے سالہاسال تک کے درس وتدریس کے مشغلےاور طویل مزاولت اور ان یمنی خصوصیات کی بنا پر جن کے ایمان وحکمت کی شہادت احادیث صحیحہ میں موجود ہے حدیث کا فن گویا ان کے رگ وریشہ میں سرایت کر گیا تھا اور ان کے دفتر ان کے سینہ میں سما گئے تھے وہ ہندوستان آئے تو علماء وفضلاء (جن میں سے بہت سے صاحب درس وصاحب تصنیف بھی تھے) نے پروانہ وار ہجوم کیا اور فن حدیث کی تکمیل کی اور ان سے سندلی۔ ‘‘
[1] نزھۃ الخواطر 8/111 [2] نزھۃ الخواطر 8/112