کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 111
قرآن و حدیث کو اہم رکھنا اس کی محبت دل میں بٹھانا: سیدناعبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنھماکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے اللہ اسے دین کی فہم و فراست عطا فرما اور اسے قرآن کی تفسیر سکھا دے‘‘[1]۔ علم کی پیاس پیدا کرنا: لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو یہ وصیت کی تم نہ علم کو مقابلے کے لیے سیکھو اور نہ جہلاء سے جھگڑنے کے لیےاور نہ ہی محفلوں میں ریاء و غرور کے لیے جب تم کچھ لوگوں کو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے دیکھو تو ان کے پاس بیٹھ جاؤ اگر تم صاحب علم ہوئے تو تمہارا علم مفید ہوگا اور اگر تم جاہل ہوگے تو وہ تمہیں اپنے علم سے مستفید کریں گے۔ بچوں کو کتابت سکھانا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: [نۗ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ ][القلم 1،2]۔ن ،قلم کی قسم ہے، اور ان کی تحریر کی قسم ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ کے نزدیک یہ ایک قابل محترم چیزہے اور اس سے لکھنے والے بھی اسی طرح محترم ہیں۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ترغیب: [كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ ۭمِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ ١١٠؁] [اٰل عمران:110] ترجمہ: (مومنو!) جتنی امتیں ( یعنی قومیں) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ عزوجل پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہت اچھا ہوتا ۔ ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں ( لیکن تھوڑے) اور اکثر نافرمان ہیں۔
[1] صحیح بخاری