کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 101
لیے خود کو ایمان سے منور کرنا ہوگا۔ مثلا دوران حمل کے توہمات اور بدعات سے خود کو محفوظ رکھنا ہوگا۔ ٭جیسے سورج گرھن چاند گرھن یہ صرف سائنسی حقیقت ہےان سےمتعلق امورکےبارےمیں توہمات کاشکارنہ ہوں، اس سے آنے والے بچے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کوئی دن یاگھڑی منحوس نہیں ہوتی۔ ٭گود بھرائی بدعات میں سے ہے ، ہندو انہ رسم ہے سنت سے اس کاکوئی تعلق نہیں۔ ٭یہ تصورغلط ہے کہ دوران حمل کسی بیمار کی بیمار پرسی کے لیے جانے سے یا جنازے سے حمل ضائع ہوجاتا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ان تمام باتوں کے لیے کافی ہے۔ آپ نے فرمایا: کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا، نہ ہی الو (کی نحوست) نہ ہی ستارے( کی وجہ سے بارش) اور نہ ہی صفر ( کے مہینے کی کوئی حقیقت ہے۔) [1] اپنی ایمانی تربیت کر کے اس کی ایمانی تربیت کی تیاری پہلے سے کرنا ہوگی۔ ان میں اللہ رب العالمین کی محبت دوران حمل سےہی ڈالنا ہوگی۔ جدید تحقیق اس بات کو ثابت کر چکی ہے کہ ہمارا بچہ سنتا بھی ہے، سمجھتا بھی ہے Reactبھی کرتا ہے اس کو اس گود حمل سے ہی محبت الٰہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کادرس دیں۔ 2۔اخلاقی تربیت: دوران حمل آپ کا بچہ آپ سے سیکھتا ہے۔ آپ کس قسم کے الفاظ بولتے ہیں۔ آپ کیا سننا پسند کرتے ہیں۔ آپ کیا دیکھتے ہیں یہ سب جو آپ دوران حمل کر رہے ہوں گےآپ کا بچہ وہ سب اثرات قبول کرے گا۔ تلاوت قرآن کا اہتمام کرنا خاص طور پر اس حالت میں، پھر کم بولنا اچھا بولنا، ہنسنا مسکرانا، شکر کے ساتھ اللہ کی طرف سے ملنے والی نعمت کو قبول کرنا اور خود جھوٹ غیبت گندے الفاظ کی ادائیگی سے بچنا تاکہ بری عادات و اخلاق ان میں جذب نہ ہوجائیں۔ ماں ہونے کے ناطے ایک ماں کو سسرال سے ہونے والے معمولی تنازعوں پر قوت برداشت کرنا اور غلطی پر Sorry کرنے کی عادت ڈالنا کہ ان کے اندر بھی غلطی پر جواز (Justification) کی عادت نہ آنے پائے۔
[1] صحیح مسلم