کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 100
امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جان لیں کہ بچہ / بچی والدین کے پاس امانت ہے اور اس کا دل منقش پاکیزہ موتی کی طرح ہوتا ہے جس پر کچھ بھی نقش کیا جاسکتا ہے۔ اگر اس کی ا چھی پرورش کی جائے تو وہ دنیا اور آخرت میں سعادت مند رہتا ہے اور اپنے والدین و اساتذہ کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر اس کی غلط تربیت کی جائے اور اس پرصحیح توجہ نہ دی جائے تو یہ اس کے لیے باعث شقاوت و ہلاکت بن جاتا ہے جو کہ نہ صرف اس بچے کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے بلکہ اس کا وبال بچے کے سر براہ اور ذمہ دار پر بھی پڑتا ہے۔ ترجمہ: ارشاد ربانی : [يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ][التحریم:6] ترجمہ: ’’ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ‘‘۔ اس لیے والدین کو دنیا کی آگ کے مقابلے میں جہنم کی آگ سے اپنے بچے کی حفاظت کی زیادہ فکر کرنی چاہیے۔ [1] بچوں کی تعلیم و تربیت ایک بھاری ذمہ داری ہے یہ اولاد اللہ کی عطا کردہ نعمت ہے یقینا کسی بھی امانت کی حفاظت کے لئے مکمل توجہ اور ہوشیاری کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان امور اور اسباب سے بچاجاسکے جو اس امانت میں خیانت کا باعث بن سکتے ہیں۔ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اس کی حفاظت کریں یا اس کے کردار و اخلاقیات کو معاشرے کے سپرد کر دیں۔ اس آزمائش پر پورا اترنے کے لیے آپ نے ان تمام پہلوؤں کو اپنے عمل میں لا کر اسی پہلو پر ان کی تربیت کرنی ہوگی جس کے لیے آپ کو پہلے سے تیاری کرنی پڑے گی۔ اور یہ مراحل پوری زندگی آپ کو مسلسل کرنے ہوں گے جن کی ابتداء ان امور سے ہوگی۔ 1۔ایمانی تربیت: کلمہ طیبہ توحیدسے خودکومعمورکرنا ہوگا اور تمام توہمات و بدعات سے خود کو بھی محفوظ رکھنا ہوگا تاکہ اس کے اثرات آپ کی اولاد میں منتقل نہ ہوں۔ ایمان کا چراغ ابتداء سے ان میں جلانا ہوگا جس کے
[1] التربیۃ الاسلامیۃ اصولھا وتطور ھا فی البلادالعربیۃ199: