کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 21
اگر ی بات ایسی ہی ضروری تھی تو الگ مضمون شائع کردیتا۔ تطلیق ثلاثہ کامسئلہ ایسا ہے جس پر صدر اول سے اختلاف چلا آرہا ہے۔اس مسئلہ پر فریقین کی طرف سے بہت کچھ لکھاجاچکا ہے۔بایں ہمہ یہ مسئلہ جوں کا توں قائم ہے۔ایسے گسے پٹے مسائل کو زیر بحث لانامیرے ذوق سے خارج ہے۔اب چونکہ قاری صاحب مجھے اس میدان میں کھینچ لائے ہیں۔لہذا اب جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں اور اس لہاظ سے میں قاری صاحب کاممنون بھی ہوں کہ ان کے ان حواشی کی وجہ سے مجھے دوبارہ اس مسئلہ کے مطالعہ کا موقع فراہم ہوگیا۔ قاری صاحب موصوف کے حواشی کا ما حصل میرے خیال میں مندرجہ ذیل چار باتوں پر مشتمل ہے:۔ 1۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو بطور تین ہی نافذ کردینے کا فیصلہ سیاسی نہیں بلکہ شرعی بنیادوں پر استوار تھا۔ 2۔یہ مسئلہ ایک آیت اور دو احادیث سے ثابت ہے۔ 3۔حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے اس فیصلہ کے بعد امت کا اس پر اجماع ہوگیا تھا۔ 4۔اس فیصلہ پر حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ندامت والا قصہ بھی من گھڑت ہے۔ اعتذار:۔ ان باتوں کا جواب دینے سے پیشتر میں اپنی ایک غلطی(مسافت) کا اعتراف ضروری سمجھتا ہوں جس کی بناء پرمیری عبارت میں سے صرف دو الفاظ کے چھوٹ جانے پر مطلب میں نمایاں فرق پڑگیا۔شائع شدہ عبارت یوں ہے"تاہم ہمیں یہ تسلیم کرلینے میں کچھ باک نہیں ہے۔کہ آپ(حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کا یہ  فیصلہ کتاب اللہ اور سنت رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تھا۔"جبکہ میرے رف مسودہ میں اس فقرہ کے آخری الفاظ یوں تھے"کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء کے خلاف تھا" جب دوسری بار مسودہ صاف کرکے لکھا تو"کی منشاء" کے الفاظ درج ہونے سے رہ گئے جس سے مطلب کچھ کا کچھ بن گیا۔شائع شدہ فقرہ سے یوں معلوم ہواہے کہ حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نعوذ باللہ کتاب اللہ  اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھی فیصلہ فرماسکتے تھے۔اور"کی منشاء"کے الفاظ شامل کرنے کے بعد یہ مفہوم بنتاہے کہ آپ کا یہ فیصلہ محض ایک اجتہادی غلطی تھی۔اور میں نے اس مضمون کو درج بھی"اجتہادی غلطی" کے عنوان کے تخت ہی کیا تھا۔ یہ تو خیر جو ہوا سو ہوا، لیکن قاری صاحب موصوف نے اس مخالفت کی نسبت حضرت