کتاب: آداب دعا - صفحہ 96
حصہ میں داخل ہوکر دعاء کر لے تو وہ بھی خانہ کعبہ میں داخل شمار ہوگا۔ کیونکہ شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ کی تحقیق کے مطابق بیت اللہ شریف سے لیکر سات ہاتھ تک یہ حطیم بیت اللہ شریف کا ہی حصہ ہے اور باقی حصہ جہاں سے دیواروں کی گولائی شروع ہوتی ہے یہ صرف حِجر اسماعیل علیہ السلام ہے ۔ [1] چنانچہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے صحیح بخاری و مسلم ، ترمذی ، و نسائی ، ابن ماجہ و دارمی ، موطأ امام مالک و مسند احمد اور اخبار مکہ ازرقی میں مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اے عائشہ ! اگر تیری قوم کے لوگ نئے نئے اسلام نہ لائے ہوتے تو میں کعبہ کو گرا کر زمین کے برابر کر دیتا اور پھر سے اسے تعمیر کرتے وقت اس کے دو دروازے بناتا ، ایک مشرقی لوگوں کے داخل ہونے کیلئے ہوتااور دوسرا مغربی لوگوں کیلئے ہوتا اور انہیں زمین کے برابر بناتا اور حِجر(حطیم) سے سات ہاتھ زمین بیت اللہ میں شامل کر دیتا ‘‘ وہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : قریش نے تعمیر کعبہ کے وقت اتنی جگہ بیت اللہ سے کیوں نکال دی تھی ؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہاری قوم کے پاس خرچہ کم پڑ گیا تھا ۔ میں نے عرض کیا : انھوں نے بیت اللہ کا دروازہ اتنا اونچا کیوں لگایا ؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تاکہ وہ جسے چاہیں خانہ کعبہ کے اندر جانے کی اجازت دیں اور جسے چاہیں نہ دین ‘‘[2]
[1] تاریخ الکعبہ حسین عبد اللہ باسلامہ ص: ۱۶۲ ، نبذۃ مختصرۃ عن الکعبۃ المشرفہ از عصام الحمیدان ص : ۳۳ [2] الصحیحۃ :۴۳ و ہناک وحوث مہمہ ، صحیح الجامع : ۵۳۲۷، ۵۳۳۱ ۔