کتاب: آداب دعا - صفحہ 48
اسی مفہوم و معنیٰ کی ایک اور روایت صحیح مسلم اور الادب المفرد امام بخاری میں ہے جو کہ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور الادب المفرد میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ اس کے آخر ی الفاظ یہ ہیں: ((۔۔۔وَ لَکِنْ لِیَعْزِمْ وَ لْیُعَظِّمِ الرَّغْبَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَتَعَاظَمُہٗ شَیٌٔ أَعْطَاہٗ)) [1] ’’بلکہ اسے چاہیٔے کہ عزم و یقین ، اور رغبت کے ساتھ دعاء کرے ۔ اللہ کے سامنے کوئی بات بڑی نہیں ہے وہ ہر چیز دے سکتا ہے ۔‘‘ (۱۸) … امام کا اجتماعی دعاء میں اپنے آپ کو خاص نہ کرنا : اگر کوئی امام ہے تو تنہا اپنے لیٔے ہی دعاء نہ کرے ۔ بلکہ سب مقتدیوں کیلئے بھی کرے ۔ مثلاً [میری] کی بجائے[ہماری] اور [میں ]کی بجائے [ہم]کے الفاظ استعمال کرے ۔ اگر کوئی امام بوقتِ دعاء مقتدیوں کو نظر انداز کرکے محض اپنا ہی خیال رکھتا ہے تو اس کا یہ طرزِ عمل خیانت کے مترادف ہوگا ۔جیسا کہ ابو داؤد ، نسائی، ترمذی ، مستدرک حاکم اور ابن حبان میں فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ((لَا یَؤُمُّ رَجُلٌ قَوْماً فَیَخُصُّ نَفْسَہٗ بِالدُّعَآئِ دُوْنَہُمْ فَاِنْ فَعَلَ خَانَہُمْ )) [2] ’’ جب کوئی آدمی کسی قوم کی امامت کرائے تو انہیں چھوڑ کر اپنے آپکو دعاء کے ساتھ خاص نہ کرے اور اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ ان کا خائن ہے ۔‘‘ ملاحظہ : یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ یہ صرف اُس وقت ہے جب آدمی نماز میں
[1] فتح الباری ۱۱؍۱۴۴، مشکوٰۃ ۲؍۶۹۲، صحیح الجامع ۱؍۱۵۳ [2] صحیح ابو داؤد للالبانی ۱؍۲۰ ۔