کتاب: آداب دعا - صفحہ 42
بھولے ۔ جامع ترمذی اور مستدرک حاکم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ((مَنْ سَرَّہٗ أَنْ یَسْتَجِیْبَ اللّٰہُ لَہٗ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَ الْکُرَبِ فَلْیُکْثِرِ الدُّعَائَ فِیْ الرَّخَائِ))۔ [1] ’’ جو یہ چاہتا ہے کہ سختیوں اور تنگدستیوں کے زمانے میں اللہ تعالیٰ اُس کی دعاء قبول فرمائے ،اُسے خوشحالی کے زمانے میں کثرت سے دعاء کرتے رہنا چاہیٔے ‘‘ ۔ حالات خواہ کیسے ہوں، دعاء و مناجات کی کثرت کریں۔ کیونکہ آپ ایسی ذات سے سوال کر رہے ہیں جس کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوسکتے ۔ جو عطاء کرتے کبھی نہیں تھکتا۔ اور اللہ تعالیٰ کا محبوب ترین بندہ وہی ہے جو سوال کرتے کبھی نہ تھکے ۔ سنن ترمذی میں ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((سَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ اَنْ یُسْأَلَ وَ أَفْضَلُ الْعِبَادَۃِ اِنْتِظَارُ الْفَرَجِ))۔ [2] ’’ اللہ سے اس کا فضل و کرم طلب کرو۔ اللہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اُس سے سوال کیا جائے۔ اور افضل عبادت کشائش کا انتظار کرنا ہے ‘‘ ۔ صحیح ابن حبان میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((اِذَا سَأَلَ اَحَدُکُمْ فَلْیُکْثِرْ فَاِنَّمَا یَسْأَلُ رَبَّہٗ)) ۔[3] ’’جب تم میں سے کوئی شخص سوال کرے تو اسے چاہیٔے کہ بکثرت (اور بڑی
[1] صحیح الجامع الصغیر ۶۲۹۰و الصحیحۃ ۵۹۳ ۔ [2] جامع الترمذی مع التحفہ ۱۰؍۱۷ [3] سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ:۳؍۳۱۶، صحیح الجامع ۱؍۱۶۳ ۔