کتاب: آداب دعا - صفحہ 39
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جامع دعاؤں کو پسند فرماتے تھے اور اُن کے ما سوا کو چھوڑدیتے تھے ‘‘ ۔ (۱۱)…مخفی طریقے سے دعاء کریں : دعاء ومناجات آہستہ آہستہ کرنی چاہیٔے کیونکہ آہستہ دعاء کرنے میں بہ نسبت بلند آواز سے دعاء کرنے کے زیادہ عاجزی وانکساری ہوتی ہے، ریا کاری ودکھلاوے کا خطرہ وخدشہ نہیں ہوتا جس کے آجانے سے اجر وعمل کا کوئی وزن نہیں رہتا ،چنانچہ سورئہ اعراف،آیت:۵۵ میں ارشادِ ربانی ہے : { اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً }۔ ’’ اپنے پرور دگار کو گِڑگِڑا کر اور پوشیدگی سے پکارو ۔‘‘ اور سورئہ مریم،آیت:۳ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک صالح بندے (حضرت زکریا علیہ السلام) کی دعاء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے : { اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَائً خَفِیًّا }۔ ’’جب اُس نے اپنے پرور دگار کو خفیہ طریقہ سے (چپکے چپکے)پکارا ۔‘‘ اس سلسلہ میں نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمانِ عالی شان بھی ہے جو کہ صحیح بخاری ومسلم ، سنن ابی داؤد،ابن خزیمہ، مسند احمد اور السنّہ ابن ابی عاصم میں حضرت ابو موسی اشعری صسے مروی ہے کہ ہم ایک سفر میں رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، کچھ آدمی بلند آواز سے تکبیریں کہہ رہے تھے تو رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ اِرْبَعُوْا عَلـٰی أَنْفُسِکُمْ فَاِنَّکُمْ لَا تَدْعُوْنَ أَصَمَّ وَلَا غَائِباً اِنَّکُمْ تَدْعُوْنَ سَمِیْعاً قَرِیْباً وَّ ہُوَ مَعَکُمْ وَالَّذِیْ تَدْعُوْنَہٗ أَقْرَبُ اِلـٰی أَحَدِکُمْ مِنْ عُنُقِ رَاحِلَتِہٖ))۔[1]
[1] مشکوٰۃ ۲؍۷۱۳،صحیح الجامع۲؍۱۲۹۸ ۔