کتاب: آداب دعا - صفحہ 15
(تو انہیں بتادیں کہ ) میں قریب ہوں اور پکارنے والے کی پکار کو سُنتا ہوں،جب بھی وہ مجھے پکارے ۔ بس انہیں چاہیٔے کہ وہ میرے احکام کی پیروی کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں ۔‘‘ جبکہ سورۂ انبیاء،آیت:۹۰ میں مسلمانوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : { اِنَّہُمْ کَانُوْا یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَباً وَرَہَباً وَّ کَانُوْا لَنَا خَاشِعِیْنَ } ۔ ’’ یہ لوگ خیرات کرنے میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں خوف ورغبت کے ساتھ پکارتے تھے اور وہ ہمارے سامنے بڑا خشوع وخضوع اختیار کرتے تھے‘‘ اور سورۂ نمل،آیت:۶۳ میں ارشاد ہوتا ہے : { اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوٓئَ وَ یَجْعَلْ لَّکُمْ خُلَفَآئَ فِي الْأَرْضِئَ اِلـٰـہٌ مَعَ اللّٰہِ قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُوْنَ} ۔ ’’ کون ہے جو مجبور و بے بس کی دعاء سنتا ہے جب کہ وہ اُسے پکارے؟اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے ؟اور کون ہے جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے ؟کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی (یہ کام کرتا) ہے ، تم لوگ کم ہی سوچتے ہو ۔‘‘ اِن تمام آیات میں دعاء وپکار اور التجاء و فریاد کی ترغیب دلائی گئی بلکہ اسکی تاکید کی گئی ہے ۔